فتوے

سرورق » فتوے
جس مقام پر بعض نمازوں کا وقت نہ آتا ہو
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
جس مقام پر بعض نمازوں کا وقت نہ آتا ہو وہاں پر نمازوں کو کیسے ادا کیا جائے؟
دنیا میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پر کبھی کبھی بعض نمازوں کا وقت آتا ہی نہیں۔ مثلاً سورج غروب ہونے کے بعد ہی سورج طلوع ہوجائے اور اتنا وقت نہ مل سکے کہ مغرب و عشاء ادا کی جائیں بلکہ نماز فجر کا وقت بھی نہیں مل پاتا۔ تو کیا ایسی جگہ پر صرف ظہر وعصر دو وقتوں کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
محمد امجد ٹولی چوکی حیدرآباد
جواب:جن مقامات پر بعض نمازوں کے اوقات نہ آئیں وہاں پر کل نمازیں ادا کرنا فرض ہے یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کرام کے دو نظریے سامنے آئے ہیں امام شرنبلالی ،حلوانی، مرغینانی وغیرہ فرماتے ہیں کہ نماز کی فرضیت کے لئے وقت شرط ہے اس لئے جن مقامات میں بعض نمازوں کے اوقات نہ آئیں وہاں وہ نمازیں ذمہ سے ساقط ہوں گی۔ لیکن فقہاء کرام میں سے امام ابن الہمام، ابن الشحنہ ، حصکفی ، شامی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ فرضیت ساقط نہ ہوگی، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی علاقے و مقام کی تفریق کے بغیر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ لہٰذا کسی خاص علاقے میں رہنے والے مسلمانوں سے بعض نمازیں ساقط نہیں ہوسکتیں۔
ان حضرات کی ایک مضبوط دلیل وہ حدیث شریف ہے جو صحیح مسلم میں نواس بن سمعان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یارسول اللہ فذالک الیوم الذی کسنۃ یکفینا فیہ صلاۃ یوم قال قدروالہ قدرہ( صحیح مسلم 2/402باب ذکر الدجال)
یا رسول اللہ ! جس وقت ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا ہمارے لئے ایک دن کی نماز ادا کرنا کافی ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں ،بلکہ وقت کا حساب لگا کر پانچ نماز یں پڑھنی ہوگی۔
وہ فقہاء کرام جو ایسے مقامات میں پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل ہیں ان کا نظریہ راجح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے مقامات پہ نمازیں کس طرح ادا کی جائیں تو اس سلسلے میں علامہ شامی نے شوافع کا یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اندازے سے نمازیں ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قریب ترین جگہ جہاں (معمول کے مطابق دن و رات کا آنا جانا ہوتا ہو)کے اوقات کا اندازہ کرکے نمازیں ادا کرے لیکن جہاں پر تھوڑی دیر کے لئے سورج غروب ہو پھر طلوع ہوجائے تو اگر شفق غائب ہونے سے پہلے سورج طلوع ہوجائے تو وہاں قضا کی نیت سے عشا کی نماز پڑھی جائے ۔ تاتارخانیہ میں ہے وفی الظہیر ےۃ انہ ینوی القضاء لفقدوقت الاداء۔قضا کی نیت کرکے پڑھ لے کیوں کہ ادا کا وقت مفقود ہے۔ واللہ اعلم
رومن انگلش یا ہندی رسم الخط میں قرآن لکھنا کیسا ہے ؟
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
رومن انگلش یا ہندی رسم الخط میں قرآن لکھنا کیسا ہے ؟
محمد امجد ٹولی چوکی حیدرآباد ِ
جواب:۔ قرآن حکیم کو عربی رسم الخط بلکہ مصحف عثمانی کے مطابق لکھنا واجب ہے ۔ رومن انگلش یا ہندی یا کسی بھی زبان کے رسم الخط میں قرآن لکھنا جائز نہیں۔ عربی زبان کے الفاظ کا تلفظ دوسری زبان کے حروف و الفاظ سے کرنا ممکن نہیں۔ قرآن حکیم کو عربی تلفظ کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ تلفظ کی غلطی سے معانی فاسد ہوجاتے ہیں۔ بلکہ معانی میں ایسا فساد پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کا عقیدہ رکھا جائے تو آدمی کا فر ہوجائے گا۔ 
علماء دین و فقہاء میں سے کسی نے غیر عربی رسم الخط میں قرآن حکیم لکھنے کو جائز نہیں کہا۔ علامہ سیوطی متوفی ۹۱۱ ؁ھ نے الاتقان فی علوم القرآن جلد۲ صفحہ ۷۱ پر لکھا : لم یجوز احد من الائمۃ الاربعۃ کتابۃ القرآن بغیر العربےۃ ۔ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) میں سے کسی نے غیر عربی رسم الخط میں قرآن لکھنے کو جائز نہیں کہا ہے۔ 
اگر کچھ تجار ایسا کرتے ہیں یا کچھ ناواقف لوگ لوگوں کی آسانی کے لئے ایسا اقدام کرتے ہیں تو اس سے باز آنا چاہئے اور ذمہ دار مسلمانوں کو دوسروں کو اس سے باز رکھنا چاہئے ۔کیوں کہ دوسری زبان کے رسم الخط میں قرآن لکھنا،چھاپنا،چھپوانا،خریدنا،پڑھنا، ناجائز و حرام ہے۔ اس سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ ہوگا۔ واللہ اعلم 

قرآن کی آڈیوکیسٹ بے وضو چھونا؟
سوال: قرآن حکیم کی آڈیوکیسٹ ،سی ڈی بغیر وضوء کے چھونا کیسا ہے ؟
جواب:قرآن حکیم کا مصحف یا جس کا غذ پہ قرآن کی آیت لکھی ہو اس کو بغیر وضو کے چھونا جائز نہیں۔ سورۃ الواقعہ آیت ۸۰ میں ہے ’’لَاےَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘ مصحف قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک لوگ ہی۔ تفسیر النسفی ج۴ص۲۲۰ پر ہے والمراد مس المکتوب منہ اس سے مراد ہے کہ جو قرآن لکھا ہوا ہے اسے نہ چھوئے۔ قرآن حکیم کی آڈیوکیسٹ یا سی ڈی میں قرآن لکھا ہوا نہیں ہوتا بلکہ آواز کی برقی لہر کو اس میں محفوظ کر لیا جاتا ہے اور اس پر کرنٹ گزرنے سے آواز نکلتی ہے ۔ اس کو چھونا مکتوب کو چھونا نہیں لہٰذا اس کو چھونا بے وضوء کے جائز ہے ۔ البتہ ناپاکی کی حالت میں اس کو چھونے سے بچنا اولیٰ و بہتر ہے۔ واللّٰہ اعلم

کتبہ :رضاء الحق اشرفی مصباحی
دارالافتاء دارالعلوم اہل سنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد

علاج کے لئے غیر مسلم سے خون لینا جائز ہے
سوال:۔بغرض علاج غیر مسلم سے خون لینا جائز ہے یا نہیں ؟
محمد جمیل کا ماریڈی (اے پی)
جواب:۔ اگر مسلمان کو علاج کے لئے خون کی ضرورت یا حاجت ہے تو بہتر ہے کہ مسلمان کا خون لے اور غیر مسلم سے بھی خون لینا شرعا منع نہیں۔ اس مسئلے کی نظیر رضاعت کا مسئلہ ہے۔ جس طرح بچے کو مسلم و غیر مسلم دایہ سے دودھ پلوانا جائز ہے اسی طرح مسلم و غیر مسلم کا خون لینا بھی جائز ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جو رسول اکرم ﷺ کی رضاعی ماں تھیں وہ وقت رضاعت کافرہ تھیں بعد میں مشرف باسلام ہوئیں۔ شرعی مسائل کی معتبر کتاب مبسوط سرخسی میں ہے :
وَلَا بَأْ سَ بِاَنْ ےَسْتَأْجِرَ المُسْلِمُ الظَّءِرَ الْکَافِرَۃَ اَوِالَّتِیْ قَدْ وَلَدَتْ مِنَ الْفُجُوْرِ لِاَنَّ خُبْثَ الْکُفْرِ فِیْ اِعْتَقَادِہَا دُوْنَ لَبْنِہَا وَالْاَنْبِےَاءُ عَلَےْہُمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَالرُّسُلُ صَلٰوَاتُ اللّٰہِ عَلَےْہِمْ فِےْہِمْ مَنْ اُرْضِعَ بِلَبْنِ الْکَوَافِرِ وَ کَذَا لِکَ فُجُوْرُہَا لَا ےُوَثِّرُ فِیْ لَبْنِہَا
(مبسوط باب اجارۃ الظئر)
ترجمہ:کافرہ یا زنا سے بچہ جننے والی دایہ کو دودھ پلوانے کے لئے اجرت پہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ کیوں کہ کفر کی گندگی اس کے عقیدے میں ہے، دودھ میں نہیں۔ بعض انبیاء کرام علیہم الصلوات والسلام کی رضاعی مائیں کافرہ بھی تھیں۔ یوں ہی دایہ کا زانیہ ہونا اس کے دودھ (کے حرام ہونے ) میں اثر انداز نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم

یوم عاشورہ
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال :۔عاشورہ کے دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں پٹنی کھیلنا یعنی سینہ کوبی کرنا اور جسم پر خنجر و چھری وغیرہ کے ذریعہ مارنا جس سے خون نکلنے لگتا ہے یہ جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد و محبت میں ایسا کرنا جائز ہے یہ قول کیسا ہے ؟ بینوا و توجروا
المستفتی: محمد ساجد اشرفی
الجواب:۔ عاشورہ کے دن امام حسین کی یاد میں پٹنی کھیلنا ، سینہ کوی اور ماتم کرنا روافض کا شعار ہے یہ ناجائز و حرام ہے ۔ امام حسین کی یاد منانے کا جائز طریقہ یہ ہے کہ اس دن مالی اور بدنی نفلی عبادات کا ایصال ثواب آپ کی روح مبارکہ کو کیا جائے ۔ آپ کی یادمیں مجلسیں قائم کی جائیں ان میں آپ کے صبر و استقامت اور سیرت طیبہ کا بیان ہو اور مسلمانوں کو آپ کی سیرت پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے ۔واللہ اعلم

کے ذریعہ طلاق ہوتی ہے؟ SMS صدر مفتی دا
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال:۔ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو اپنے موبائل سے ’’ تجھے طلاق ہے ‘‘ لکھ کر ایس ایم ایس کیا پھر زید نے سوچا کہ شاید ایس ایم ایس اس کی بیوی کو نہیں پہنچا پھر دوبارہ اس نے ’’ تجھے طلاق ہے‘‘ لکھ کر ایس ایم ایس کر دیا ۔ دونوں ایس ایم ایس ہندہ کو مل گئے یہ مسئلہ گاؤں کے مولانا سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ زید کی بیوی ہندہ پر دو طلاق واقع ہوگئی۔ حالانکہ زید کہتا ہے کہ میں نے دوسرا یس ایم ایس دوسری طلاق کی نیت سے نہیں بھیجا تھا بلکہ میرا خیال تھا کہ پہلا ایس ایم ایس نہیں پہنچا ہے میں نے ایک ہی بار طلاق دی ہے تو کیا زید کی بات مان لی جائے گی۔ جواب سے نوازیں۔
سائل محمد روح الدین
لک الحمد باللہ والصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ
اللہم ہداےۃ الحق و الصواب
الجواب بعون اللہ الوہاب:
صورت مسؤلہ میں زید کی بیوی ہندہ اگر غیر مدخولہ ہے تو اس پر دوطلاق واقع ہو چکیں عدت کے اندر زید اس کو بغیر نکاح کے لوٹا سکتا ہے۔ زید کی بات کہ اس نے طلاق کا دوسرا ایس ایم یس دوسری طلاق کے ارادے سے نہیں بھیجا تھا بلکہ اس خیال سے بھیجا تھا کہ شاید پہلا ایس ایم ایس نہیں ملا ہوگا؟ قضاء نہیں مانی جائے گی ۔
رد المختار میں تاثر خانیہ کے حوالے سے ہے : کتب فی قرطاس : اذا اتاک کتابی ہذا فانت طالق ثم نسخہ فی آخر او آمر غیرہ بنسخہ و لم یملہ فاتاہا الکتابان طلقت شنتین قضاء ان اقرانہما کتاباہ او برہنت
واللہ اعلم

کسی شخص پر رمضان کے روزے باقی ہوں
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
میت کی طرف سے رمضان کے روزے رکھنا ؟
سوال:۔ کسی شخص پر رمضان کے روزے باقی ہوں تو اس کی موت کے بعد اس کا وارث اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے ؟
جواب:۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی موقوف اور مرفوع حدیث شریف ہے کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ رکھے اور نہ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔ (مؤطا امام مالک ص ۲۴۵)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرف سے کوئی روزہ رکھے تو درست نہیں اور کسی کی طرف سے کوئی نماز ادا کرے تو بھی درست نہیں البتہ نماز پڑھ کر اور روزہ رکھ کر آدمی اس کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص انتقال کرے اور اس پر رمضان کے روزے باقی تھے تو اس کا کوئی وارث اس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا۔ اگر میت نے فدیہ دینے کی وصیت کی ہو تو اس کے مال سے فدیہ دینا واجب ہے اور اگر وصیت نہ کی ہو تو فدیہ دینا لازم نہیں ۔ وارثین فدیہ دیں تو مستحب ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع گیہوں یعنی ۴۵۔۲ کلو گرام یااس کی قیمت دینا ہے ۔

شب معراج
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال:۔شب معراج رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ؟
کچھ لوگ حضرت عائشہ کی حدیث کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ دیدار نہیں کیا ؟ صحیح کیا ہے دلائل کے ساتھ جواب دیں۔
جواب:۔راجح قول یہ ہے کہ شب معراج رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیدار اپنے سر کی آنکھوں سے کیا ہے۔ اس کے ثبوت پر درج ذیل احادیث و آثار دلیل ہیں۔
(۱) صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ جب سدرۃ المنتہی آیا اور جبّار رب العزت (اللہ تعالیٰ ) آپ ﷺ کے قریب ہوا۔ پھر اور قریب ہوا یہاں تک کہ (گویا) وہ آپ سے دو کمانوں کے فاصلے پر رہ گیا یااس سے بھی زیادہ قریب (صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۱۲۰)
(۲) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ میں نے حضرت ابوذر ص سے کہا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ حضرت ابوذرص نے پوچھا ۔ تم کیا سوال کرتے ؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے یہ سوال کرتا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابوذرص نے کہا کہ میں نے یہ سوال آپ سے کیا تھا تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے ’’نور دیکھا ‘‘۔ (صحیح مسلم ج۲ص۹۹)
(۳) ترمذی شریف میں سند حسن کے ساتھ حضرت عکرمہ کی روایت مذکور ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس ص نے فرمایاکہ سید نا محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ۔ میں نے (عکرمہ نے ) کہا کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں کہ لاتدرک الابصار و ہو یدرک الابصار (نگاہیں اللہ کا ادراک نہیں کرسکتیں اور اللہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے) ۔ حضرت ابن عباس صنے فرمایا تم پر افسوس ہے (کہ تم اس آیت کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے )یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے خاص نور کے ساتھ تجلی فرمائے۔ بے شک سیدنا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی ص ۴۷۲،۴۷۱)
(۴) ترمذی شریف میں یہ روایت بھی ہے۔ شعبی کہتے ہے کہ میدان عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت کعب ص کی ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباسص نے حضرت کعبص سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا جس سے پہاڑ گونج اٹھا ۔حضرت ابن عباس ص نے فرمایا: میں بنو ہاشم ہوں (آپ میرے سوال کا جواب ضرور دیجئے) تو حضرت کعب ص نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم فرمادیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دو مرتبہ کلام فرمایا اور حضرت محمد ﷺ نے اللہ کو دو بار دیکھا ۔ (ترمذی ص ۴۷۱)
(۵) مسند احمد بن حنبل میں حضرت عکرمہص سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ص نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کا دیدار کیا (مسند احمد ج۱ ص ۲۹۰)
(۶) صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عباس ص سے مروی ہے حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا (صحیح ابن حبان ج ۱ ص ۲۲۶)
(۷) امام حاکم نے حضرت ابن عباسص کی یہ روایت ذکر کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔شرط بخاری پر ہے۔ حضرت ابن عباس ص نے فرمایا : کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں اور موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور محمد ﷺ کواللہ کا دیدار حاصل ہو اہے۔(مستدرک ج۱ص ۶۵)
(۸) محدث حافظ نورالدین الہیثمی نے ’’ مجمع الزوائد ‘‘ میں حضرت ابن عباس ص کی روایت ذکر کی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ (مجمع الزوائد ج۱ص۷۸)
(۹) مجمع الزوائد میں طبرانی اوسط کے حوالے سے ہے کہ حضرت ابن عباس ص فرماتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے ۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج۱ص۷۹)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا تو ان کی مراد یہ ہے کہ جس طرح عام طورپر کسی چیز کو دیکھا جاتا ہے کہ آنکھ اس کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح اللہ کو نہیں دیکھا جاسکتا ۔اس معنی کے اعتبار سے قرآن حکیم کی آیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے استدلال کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احاطہ کے طورپر اللہ کو نہیں دیکھا۔ لہٰذا حضرت عائشہ کا قول حضرت ابن عباس ص ، حضرت ابو ذرص اور دیگر صحابہ کرام کے قول کے خلاف نہیں ۔

کتنے کلومیٹر کے سفر سے نماز میں قصر کیا جائے گا
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
کتنے کلومیٹر کے سفر سے نماز میں قصر کیا جائے گا ؟
سوال :۔ کتنے کلومیٹر کے سفر سے نماز قصر کیا جائے گا ۔ کچھ لوگ 54میل کہتے ہیں اور کچھ 48میل کہتے ہیں ۔ درست کیا ہے ؟
محمد اکرم جوگیشوری ممبئی
جواب:۔ راجح قول کے مطابق سفر شرعی کی مسافت 48میل ہے ۔ اس قول کو صحیح بخاری میں مذکور دوصحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس اور حصرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے تائید حاصل ہے کہ وہ دونوں حضرات چار برید کے سفر پر نماز میں قصر کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری ۲؍۱۴۷) ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور 16فرسخ 48میل ۔ میل سے انگریزی میل مراد نہیں بلکہ میل شرعی یعنی دو ہزار گز اور دو ہزار گز ایک کلومیٹر 828میٹر 800سنٹی میٹر کے برابر ہے اس طرح 48میل کو کلو میٹر میں تبدیل کرنے سے 87کلومیٹر 7820میٹر 400سنٹی میٹر ہوتا ہے ۔
روزہ کی حالت
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال:۔روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیشٹ استعمال کرنا کیسا ہے ؟
جواب:۔ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پاؤڈر یا پیسٹ کا استعمال کرنا مکروہ ہے ، اگر پاؤڈر یا پیسٹ کا کچھ حصہ حلق سے نیچے اتر جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:کرہ ذوق شئی و مضغہ بلا عذر (ج۱ص۱۹۹)
سوال :۔زندہ یا مردہ انسان کا کوئی عضو دوسرے انسان کے جسم میں لگایا جا سکتا ہے؟
جواب:۔ کسی بھی زندہ یا مردہ انسان کے جسم سے کسی عضو کو الگ کر کے دوسرے انسان کے جسم میں لگانا اسلام کی نظر میں حرام ہے۔ انسان کو اللہ نے باکرامت بنایا ہے۔ اس کا جسم حیات و موت دونوں حالتوں میں قابل تعظیم و تکریم ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّوَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِنَ الطَّےِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِےْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِےْلًا (الاسراء آیت :۷۰)
ترجمہ: اور ضرور ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر کے سفر کے لئے سوار ی مہیا کی اور ہم نے انہیں اچھی چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے انہیں بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے۔
انسانی جسم کی تعظیم و تکریم صرف حیات ہی میں نہیں بلکہ بعد موت بھی واجب ہے۔ جس طرح کسی زندہ آدمی کے جسم کی ہڈی توڑنا حرام ہے اسی طرح مردہ آدمی کی ہڈی بھی توڑنا حرام ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :کَسْرُ عِظَامِ الْمَےِّتِ کَکَسْرِہَا حَیًّا۔ میت کی ہڈی توڑنا زندہ آدمی کی ہڈیاں توڑنے کی طرح حرام ہے۔ (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ ص۴۴۴) انسانی جسم کی تکریم کے پیش نظر فقہاء اسلام نے فرمایا ہے کہ بھوک کی وجہ سے کوئی ہلاک ہو رہا ہو تو بھی اسے اجازت نہیں کہ وہ کسی مرد ہ یا زندہ انسان کے جسم کے کسی حصے کو کھائے۔ امام قاضی خان فرماتے ہیں : مُضْطَرٌلَمْ ےَجِدْ مَےْتَۃً وَ خَافَ الْہَلَاکَ فَقَالَ لَہُ رَجلٌُ اِقْطَعْ ےَدِی وَ کُلْہَا اَوْ قَالَ اِقْطَعْ مِنِّیْ قِطْعَۃً وَکُلْہَا لَا ےَسْعُہٗ اَنْ ےَفْعَلَ ذَالِکَ وَ لَا ےَصِحُّ اَمْرُہٗ بِہٖ کَمَالَا ےَصِحُّ لِلْمُضْطَرِّ انْ ےَقْطَعَ قِطْعَۃً مِنْ لَحْمِ نَفْسِہٖ فَےَاْکُلُ(فتاویٰ قاضی خان علی ہامش الہندیہ ۳؍۴۰۴ مطبع بولاق مصر)
ترجمہ: کوئی مجبور آدمی بھوک سے مرنے کا خوف کرے اور کھانے کو مردار بھی نہ ملے اور کوئی آدمی اس سے کہے کہ میرا ہاتھ کاٹ کے کھالو یا کہے کہ میرے جسم سے کوئی ٹکڑا کاٹ کر کھالو تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں اور آدمی کا یہ حکم دینا بھی صحیح نہیں جیسا کہ مجبور شخص کا اپنے ہی جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر کھانا صحیح نہیں۔
امام شمس الدین سرخسی نے تحریر فرمایا : وَالْآدَمِیُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِہٖ عَلٰی مَاکَانَ عَلَےْہِ فِی حَےَاتِہٖ فَکَمَا ےُحَرَّمُ التَّدَاوِی بِشَءْیٍ مِنَ الْآدَمِیِّ الْحَیِّ اِکْرَامًا لَہٗ فَکَذَالِکَ لَا ےَجُوْزُ التَّدَاوِی بِعَظْمِ الْمَےِّتِ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ کَسْرُ عَظْمِ الْمَےِّتِ کَکَسْرِ عَظْمِ الْحَیِّ(شرح سیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۱۲۸)
ترجمہ: آدمی حیات و موت دونوں حالتوں میں قابل احترام ہے۔ جس طرح تعظیم کی وجہ سے زندہ آدمی کے جسم کے کسی حصے سے معالجہ حرام ہے اسی طرح میت کی ہڈی سے معالجہ بھی جائز نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : میت کی ہڈی توڑنا زندہ آدمی کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔
انسان کے پاس اس کے تمام اعضا اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں ۔اللہ نے ان کے ذریعہ انسان کو خود نفع اٹھانے اور دوسروں کو نفع پہنچانے کی اجازت ہے لیکن اسے یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ وہ ان کا استعمال جیسے چاہے کرے اور اسے یہ اختیاربھی نہیں دیا گیا ہے کہ وہ اپنا کوئی عضو خود ہلاک کرلے یا فروخت کردے یا ہبہ کر دے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہاء اسلام کی تصریحات کے مطابق کسی بھی حالت میں کسی زندہ یا مردہ انسان کے جسم کے کسی عضو کو مثلاً کسی زندہ یا مردہ آدمی کی آنکھ یا دل یا گردہ وغیرہ کو دوسرے انسان کے جسم میں لگانا ناجائز ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی شرعی حیثیت
مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال :۔میڈیکل سائنس نے مختلف جہتوں سے بڑی ترقی کی ہے۔ انہیں میں سے ایک ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ یعنی مصنوعی استقرار حمل بھی ہے۔ عصر حاضر میں عام طور پر اس کے سات طریقے رائج ہیں،ان میں بعض طریقے ایسے ہیں جن میں نسل و خاندان کا اختلاط و ضیاع لازم آتا ہے ، نیز دوسری قباحتیں بھی ہیں جن کو سوالات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ مغربی دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ اس کا رواج بڑھ رہا ہے اور اب ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال برصغیر کے مغرب زدہ مسلمانوں میں بھی خاموشی کے ساتھ داخل ہورہا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر آپ سے گزارش ہے کہ فقہ حنفی کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کون کون سے طریقے جائز و مباح ہیں اور کون کون سے طریقے ناجائز و حرام ہیں، تاکہ امت مسلمہ شرعی احکام سے واقف ہو کر گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رہ سکے۔
(۱) نطفہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا ہو ، اس کی تلقیح بیوی کے بیضہ سے ہو ،پھر جنین کی پرورش بیوی کے رحم میں کی جائے؟
(۲)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے ، یا پھر جنین کی پرورش کسی دوسری عورت کے رحم میں کی جائے ، جس نے اس کے لئے اپنی خدمات رضا کارانہ طورپر پیش کی ہوں؟
(۳)کسی اجنبی شخص کے نطفے اور اجنبی عورت کے بیضے کے درمیان بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش بیوی کی رحم میں کی جائے ؟
(۴)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش اسی شوہر کی دوسری بیوی کی رحم میں کی جائے ؟
(۵)نطفہ شوہر کا اور بیضہ بیوی کا ہو ، ان کی تلقیح بیرونی طور پر کی جائے ، پھر جنین کی پرورش اس بیوی کے رحم میں کی جائے ؟
(۶)شوہر کا نطفہ لے کر اس کی بیوی کی اندام نہانی یا رحم میں کسی مناسب جگہ پر اس طرح پہنچا دیا جائے کہ تلقیح کا عمل اندرونی طورپر وہیں انجام پائے؟
(۷)نطفہ شوہر کا ہو اور بیضہ کسی ایسی عورت سے لیا جائے جو اس کی بیوی نہ ہواور پھر تلقیح کا عمل انجام دینے کے بعد جنین کی پرورش شوہر کی بیوی کے رحم میں کی جائے ؟
نوٹ:۔ جوابات مختصر اور جامع ہوں
از: مبارک حسین مصباحی : مدیر اعلیٰ ماہ نامہ اشرفیہ
جواب:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَکَ الْحَمْدُ ےَا اَللّٰہُ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَےْکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ ہِدَاےَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سولات کے مختصر جوابات پیش کئے جارہے ہیں :
(۱) نطفہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مردکا ہو ، اس کی تلقیح (Pollination)بیوی کے بیضہ سے ہو پھر جنین (Fetus)کی پرورش بیوی کے رحم (Womb) میں کی جائے ۔ استقرار حمل کا یہ طریقہ بہرحال حرام ہے۔ یہ مثل زنا ہے ۔ ایسا کرنے والے مردو عورت گناہ کبیرہ کے مرتکب ، مستحق تعزیر ہیں، اس فعل قبیح کے حرام ہونے کی کئی وجہیں ہیں :
*نسل انسانی کی افزائش کا جو طریقہ اسلام نے متعین کیا ہے ، مذکورہ بالا مصنوعی طریقہ اس کے خلاف ہے ، اسلام نے نسل انسانی کی افزائش کا ذریعہ میاں، بیوی کو بنایا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے : ےٰٓأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِےْرًا وَّنِسَاءً (النساء:۱) ترجمہ : اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور دونوں سے کثیر مردو عورت پھیلائے۔ شوہر کا نطفہ (Sperm)گویا بیج اور بیوی کا رحم اس کے استقرار و نمو کے لئے زمین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
نِسَآءُ کُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ(البقرہ : ۲۲۳)
ترجمہ : تمہاری بیویاں تمہارے کھیت ہیں تو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔
آیت مذکورہ کی تفسیر کے تحت حاشےۃ الصاوی علی الجلالین میں ہے :
(نِسَآءُ کُمْ حَرْثٌ) اَیْ کَالْاَرْضِ لِےُوْضَعَ فِےْہَا البَذْرُ فَشُبِّہَ النِّسَاءُ بِالْاَرْضِ الَّتِیْ تُحْرَثُ وَ شُبِّہَ النُّطْفَۃُ بِالْبَذْرِ الَّذِیْ ےُوْضَعُ فِیْ تِلْکَ الْاَرْضِ وَ شُبِّہَ الْوَلَدُ بِالزَّرْعِ الَّذِیْ ےَنْبُتُ مِنْ الْاَرْضِ۔
یعنی بیویوں کو تشبیہ دی گئی زمین سے ، جس میں بیج بویا جاتا ہے اور نطفہ کو تشبیہ دی گئی بیج سے ، جو زمین میں ڈالا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے بچے کو تشبیہ دی گئی کھتیے سے ، جو زمین سے پیدا ہوتی ہے۔
کسی مرد کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بیج (نطفہ ) کو دوسرے کی زمین (بیوی کے رحم ) میں ڈالے اور یہ بھی حلال نہیں کہ دوسرے کی کھیتی (جنین ) کو اپنے پانی (منی ) سے سیراب کرے۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے : لَا ےَحِلُّ لِاْمْرَءٍ ےُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْےَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ ےَسْقِیَ مَاءُ ہُ زَرْعَ غَےْرِہٖ(ابوداؤد : کتاب النکاح )
زنامیں غیرکے حرث (بیوی کے رحم ) میں اپنا بیج (نطفہ )ڈالنا پایا جاتاہے اور استقرار حمل کے مذکورہ بالا طریقوں میں بھی یہ معنی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حرام ہے ۔
*شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے نطفے (Sperm)سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے، اسلام اسے جائز صحیح النسب نہیں کہتا۔ نسب اور مصاہرت (سسرالی رشہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے ضمن میں مقام احسان و امتنان میں ذکر فرمایا ہے ۔ اس کا ارشاد ہے :
وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشْراً فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَّ صِہْرًا وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِےْراً(الفرقان : ۵۴)
ترجمہ : وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی ، پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کی اور تمہارا رب قدرت والا ہے ۔ استقرار حمل کے مذکورہ طریقے میں نسب و رشتہ مصاہرت(سسرالی رشتہ) کااختلاط ہے ، جوان کی پامالی کا سبب ہے اور ان کی پامالی حرام ہے ۔
قرآن حکیم میں ہے :
فَہَلْ عَسَےْتُمْ اِنْ تَوَلَّےْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ اُوْلٰءِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَہُمْ ( محمد : ۲۲،۲۳)
ترجمہ : تم سے یہی امید ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچاؤگے اور اپنے رشتوں کو کاٹوگے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے۔ اللہ نے انہیں بہرے اندھے بنادئیے۔
مذکورہ مصنوعی طریقۂ حمل میں نسب و رشتۂ مصاہرت(سسرالی رشتہ) کا اختلاط ہے ، جو ان کی پامالی کا سبب ہے ۔ لہٰذا یہ حرام ہے۔
* زمانہ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ بیوی حیض سے پاک ہوتی تو شوہر اس سے کہتا کہ فلاں مرد کو پیغام پہنچاؤ کہ وہ تم سے وطی کرے۔ بیوی اس اجنبی مرد سے وطی کرتی اور جب تک اجنبی مرد کی وطی سے حمل قرار نہ پاتا شوہر اس سے وطی نہیں کرتا تھا۔ حمل ظاہر ہوجانے کے بعد شوہر چاہتاتو اس سے وطی کرتا تھا ۔ شوہر یہ اس لئے کرتا تھا تاکہ کسی شریف النسب مرد کے نطفہ سے اسے اولاد حاصل ہو۔ اس طریقہ کو’’ نکاح استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا۔
سنن ابوداؤد شریف کتاب الطلاق میں ہے :
اَنَّ النِکَاحَ کَانَ فِی الْجَاہِلیَّۃِ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اَنْحَاءٍ فَنِکَاحٌ مِنْہَا، نِکَاحُ النَّاسِ الْےَوْمَ ، ےَخْطُبُ الرَّجُلُ اِلٰی الرَّجُلِ وَ لِیََّتَہُ فَےُصْدِقُہَا۔ ثُمَّ ےَنْکَحُہَا وَ نِکَاحٌ آخَرُ ، کَانَ الرَّجُلُ ےَقُوْلُ لِاْمْرَأَتِہٖ اِذَا طَہُرَتْ مِنْ طَمْثِہَا ’’ اَرْسِلِی اِلٰی فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِیْ مِنْہُ ‘‘ وَ ےَعْتَزِ لُہَازَ وْ جُہَا وَلَا ےَمَسُّہَا حَتّٰی ےَتَبَیَّنَ حَمْلُہَا مِنْ ذَالِکَ الرَّجُلِ الَّذِیْ تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ وَہَذَا النِّکَاحُ ےُسَمَّی ’’ نِکَاحَ الْاِسْتِبْضَاعِ‘ ‘۔
ترجمہ: زمانۂ جاہلیت میں نکاح چار طریقے کا ہوتا تھا، ان میں سے ایک طریقہ وہی ہے جو آج لوگوں میں رائج ہے کہ کوئی آدمی کسی آدمی کی بیٹی، بہن کے پاس پیغام دیتا ہے پھر اس سے مہر کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ بیوی حیض سے فارغ ہوتی تو اس کا شوہر اس سے کہتا کہ تم فلاں آدمی کو پیغام بھیجو تاکہ وہ تم سے وطی کرے۔ عورت اس اجنبی مرد سے وطی کرتی تھی اور اس سے حمل ٹھہرنے تک شوہر وطی نہیں کرتا تھا۔ اس نکاح کو ’’ نکاح استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا۔
حدیث مذکورکا آخری حصہ یہ ہے ۔
فَلَمَّا بَعَثَ اللّٰہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ہَدَمَ نِکَاحَ اَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہُ اِلَّا نِکَاحَ اَہْلِ الْاِسْلَامِ۔
ترجمہ :جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو آپ نے اہل اسلام کے نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح کو باطل کر دیا۔
استقرار حمل کا مذکورہ بالا مصنوعی طریقہ اور ’’ نکاح استبضاع ‘‘ کے ذریعہ استقرار حمل کا طریقہ دونوں اس لحاظ سے ایک ہیں کہ دونوں طریقوں میں شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے نطفہ کو بیوی کے رحم میں داخل کر کے اولاد حاصل کی جاتی ہے۔ فرق دونوں میں اتنا ہے کہ نکاح استبضاع میں غیر شرعی طورپر طرفین کے جنسی اختلاط ( زنا) سے بچہ پیدا ہوتا ہے ، جو زنا کی وجہ سے حرام ، موجب حد ہے ، لیکن مذکورہ بالا مصنوعی استقرار حمل میں غیر شرعی طورپر طرفین (اجنبی مردو عورت) کے نطفہ و بیضہ کے اختلاط کے ذریعہ بچہ حاصل کیا جاتا ہے ، معنوی اعتبار سے دونوں ایک ہیں اگرچہ صورتاً و عملًا دونوں الگ الگ ہیں۔ لہٰذا دونوں کے حرام ہونے میں شبہ نہیں۔ البتہ یہ صرف معنًا زنا ہونے کی وجہ سے حرام ہونے کے باوجود موجب تعزیر ہوگا ، موجب حد نہیں ۔
(۲) شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے پھر تلقیح کے بعد جنین کی پرورش بیوی کے علاوہ دوسری عورت کی رحم میں کرنا جائز نہیں۔ یہاں بھی اختلاط نسب کی صورت موجود ہے۔ بچہ ماں کی جانب بھی منسوب ہوتا ہے اور یہاں بچہ ، ماں کی طرف نسبت کرتے ہوئے مخلوط النسب ہوگا۔ کیو ں کہ جس عورت نے اپنی رحم میں اجنبی مرد کی جنین کی پرورش کے لئے رضا کارانہ خدمات پیش کیں (اگر چہ یہ خدمت پیش کرنا بھی حرام ہے ) عُرفاً بچے کی ماں نہیں ہوگی، بلکہ جس عورت کے لئے اس نے یہ خدمات پیش کی ہیں وہی بچے کی ماں کہلائے گی اور سارے حقوق مادری عُرفاً اسی کے لئے ہوں گے۔ حالانکہ شرعاً بچے کی ماں وہی عورت ہے جس کے رحم میں اس کی پرورش ہوئی ، جس نے اسے خون جگر پلایا، مشقت پہ مشقت کر کے اسے جنا۔
قرآن حکیم میں ہے :
ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذَا اَنْشَأَ کُمْ مِنْ الْاَرْضِ وَ اِذَا اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ ( النجم : ۲۲)
ترجمہ : وہ (اللہ )تمہیں خوب جانتا ہے کہ جب تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچّے تھے۔ اور قرآن حکیم میں یہ بھی ہے :
ےَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلَقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلٰثٍ(الزمر :
۶) ترجمہ : وہ تم کو پیدا کرتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک طرح کے بعد دوسری طرح تین تاریکیوں میں ۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے : وَا
للّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شِےْءًا وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالَْاَفْءِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(النحل : ۷۸)
ترجمہ: اور اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے لئے کان اور آنکھ بنائے اور دل ، تاکہ تم شکر ادا کرو۔ پھر جنین کی پرورش کرنے والی عورت شوہر والی ہو تو شرعی طورپر بچہ اس کے شوہر کا ہوگا ۔ کہوں کہ بچہ صاحب فراش (شوہر ) کا ہوتا ہے۔ حالانکہ جس عورت کے بیضہ سے بچہ ہوا ہے ، بچہ اس کا جز ہونے کے اعتبار سے اس عورت کی جانب بھی منسوب ہوگا اور جس مرد کے نطفے سے بچے کی تخلیق ہوئی ، بچہ اس کا جز ہونے کے باوجود شرعی طورپر اس کا باپ نہیں ہوگا۔ بہرحال یہاں نسب کا اختلاط ہے ، جو حرام ہے۔ نسب کو اختلاط سے بچانے کے لئے شریعت اسلامیہ میں مطلقہ مدخولہ عورت کے لئے عدت کو واجب کیا گیا۔ عدت کی حکمتوں کو ذکر کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں :
مِنْہَا مَعْرِفَۃُ بَرَاءَ ۃِ رَحْمِہَا مِنْ مَاءِ ہٖ لِءَلَّا تَخْتَلِطَ الْاِنْسَابُ فَاِنَّ النَّسَبَ اَحَدُ مَا ےُتَشَاحُ بِہٖ وَےَطْلُبُہُ الْعُقْلَاءُ وَہُوَ مِنْ خَوَاصِّ نَوْعِ الْاِنْسَانِ وَ مِمَّا امْتَازَ بِہٖ مِنْ سَاءِرِالْحَےْوَانِ وَہُوَ الْمَصْلِحَۃُ الْمَرْعِیَّۃُ فِیْ بَابِ الْاِسْتِبْرَاءِ ( حجۃ اللہ البالغہ : ۲؍۲۵۶،دارالکتب بیروت)
ترجمہ : عدت کی ایک حکمت مطلقہ عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کے رحم کی صفائی معلوم کرنا ہے ۔ تاکہ نسب خلط ملط نہ ہوں۔ کیونکہ نسب کے سلسلے میں ایک دوسرے پر سب سے زیادہ غلبہ حاصل کیا جاتا ہے اور عقلاء کا یہ مطلوب ہے۔ یہ نوع انسانی کے خواص سے ہے جس کے ذریعہ وہ تمام حیوانوں سے ممتاز ہے۔ استبراءِ رحم(رحم کو نطفہ سے خالی کرنا) کے باب میں یہی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ بہرحال استقرار حمل کے مذکورہ بالا طریقے کو جائز قرار دینے سے، اختلاط نسب ، قطع رحم اور بہت سے مفاسد دینیہ و دنیویہ کے ساتھ ساتھ رضاعت، حضانت ، وراثت کے بہت سے مسائل میں شریعت اسلامیہ کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی لازم آئے گی ۔
(۳)کسی اجنبی شخص کے نطفے اور اجنبی عورت کے بیضے کے درمیان بیرونی طورپر تلقیح کی جائے ، پھر جنین کی پرورش بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ عمل بھی حرام مثل زنا ہے۔ یہ طبعی و شرعی دونوں لحاظ سے قبیح اور قرآن کا فرمان ، فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے بھی نسب کا اختلاط و ضیاع ، خاندان و نسل کی بربادی اور اس کے نتیجے میں قطع صلہ رحمی اور حقوق والدین کی پامالی وغیرہ مفاسد لازم آتے ہیں۔
(۴)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش اسی شوہرکی دوسری بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ صورت بھی ناجائز ہے ۔ یہاں ماں کی طرف نسبت کرتے ہوئے بچے کا نسب مخلوط ہوگا۔ کیونکہ میاں بیوی کے نطفہ و بیضہ کے اختلاط سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نسب دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جس بیوی کے بیضہ سے بچہ پیدا ہوا وہی اس کی ماں ہے ۔ حالانکہ قرآنی ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کے شکم سے بچہ پیدا ہوتا ہے وہی اس کی ماں ہے۔
چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
وَوَصَّےْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَےْہِ اِحْسَانًا ،حَمَلَتْہُ اُمُّہُ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا (الاحقاف: ۱۵)
ترجمہ : ہم نے انسان کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور اس کو جنا تکلیف سے۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے :
وَوَصَّےْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَےْہ ، حَمَلَتْہُ اُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَ فِصٰلُہُ فِیْ عَامَےْنِ اَنِ اشْکُرْلِی وَلِوَالِدَےْکَ (لقمن : ۱۴)
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکیدی حکم دیاکہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکرگزار رہ ۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پہ کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے۔ یہ بھی قرآن پاک میں ہے :
اِنْ اُمَّہَا تُہُمْ اِلَّاالْلاَّءِی وَلَدْنَہُمْ(المجادلہ : ۲)
ترجمہ : نہیں ان کی مائیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا۔
باوجود اس کے جس بیوی کے بیضہ سے بچہ پیدا ہوا وہ ماں ہونے کا دعویٰ کرے گی اور بچہ جننے والی بیوی بھی ماں ہونے کا دعوی رکھے گی اور بچہ دونوں کا جز ہونے کے لحاظ سے دونوں کی جانب منسوب ہوگا جس سے ماں کی طرف اس کا نسب مختلط ہوگا۔ پھر حقوق مادری میں نزاع واقع ہوگا۔ نیز حضانت(پرورش) و وراثت وغیرہ مسائل میں فساد لازم آئے گا۔
(۵،۶)نطفہ شوہر کا اور بیضہ بیوی کا ہو ، ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے ۔ پھر جنین کی پرورش اس بیوی کی رحم میں کی جائے ۔ یا ۔ شوہر کا نطفہ کے کراسکی بیوی کے اندام نہانی یا رحم میں کسی مناسب جگہ اس طرح پہنچادیا جائے کہ تلقیح کا عمل وہیں انجام پائے۔ یہ دونوں طریقے اس شرط کے ساتھ جائز ہیں کہ تلقیح کا عمل خود شوہر انجام دے ۔ کیوں کہ شوہر کے علاوہ دوسرے مردو عورت کے لئے عورت کی شرمگاہ کو بلا ضرورت شرعیہ دیکھنا اور چھونا حرام ہے۔
(۷) نطفہ شوہر کا ہو اور بیضہ کسی ایسی عورت سے لیا جائے جو اس کی بیوی نہ ہو ، پھر تلقیح کا عمل انجام دینے کے بعد جنین کی پرورش شوہر کی بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ طریقہ حرام ہے ۔ یہ مثل زنا ہے ۔ اس میں اختلاط نسب بھی ہے اور یہ قطع رحم کا سبب بھی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

کال / ای میل کریں

+91 939 55 249 03

ہم تک پہنچیں

# 17-3-325/5/A,
مرتضی نگر ، یاقوت پورہ ، بڑہ بازار
حیدرآباد - 23 ، ٹی ایس ، انڈیا

Copyrights © 2024 Islamic Research Centre Hyderabad, All Rights Reserved.