مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی
صدر مفتی دارالعلوم اہلسنت امام احمد رضا یاقوت پورہ حیدرآباد
سوال :۔میڈیکل سائنس نے مختلف جہتوں سے بڑی ترقی کی ہے۔ انہیں میں سے ایک ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ یعنی مصنوعی استقرار حمل بھی ہے۔ عصر حاضر میں عام طور پر اس کے سات طریقے رائج ہیں،ان میں بعض طریقے ایسے ہیں جن میں نسل و خاندان کا اختلاط و ضیاع لازم آتا ہے ، نیز دوسری قباحتیں بھی ہیں جن کو سوالات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ مغربی دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ اس کا رواج بڑھ رہا ہے اور اب ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا استعمال برصغیر کے مغرب زدہ مسلمانوں میں بھی خاموشی کے ساتھ داخل ہورہا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر آپ سے گزارش ہے کہ فقہ حنفی کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کون کون سے طریقے جائز و مباح ہیں اور کون کون سے طریقے ناجائز و حرام ہیں، تاکہ امت مسلمہ شرعی احکام سے واقف ہو کر گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رہ سکے۔
(۱) نطفہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا ہو ، اس کی تلقیح بیوی کے بیضہ سے ہو ،پھر جنین کی پرورش بیوی کے رحم میں کی جائے؟
(۲)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے ، یا پھر جنین کی پرورش کسی دوسری عورت کے رحم میں کی جائے ، جس نے اس کے لئے اپنی خدمات رضا کارانہ طورپر پیش کی ہوں؟
(۳)کسی اجنبی شخص کے نطفے اور اجنبی عورت کے بیضے کے درمیان بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش بیوی کی رحم میں کی جائے ؟
(۴)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش اسی شوہر کی دوسری بیوی کی رحم میں کی جائے ؟
(۵)نطفہ شوہر کا اور بیضہ بیوی کا ہو ، ان کی تلقیح بیرونی طور پر کی جائے ، پھر جنین کی پرورش اس بیوی کے رحم میں کی جائے ؟
(۶)شوہر کا نطفہ لے کر اس کی بیوی کی اندام نہانی یا رحم میں کسی مناسب جگہ پر اس طرح پہنچا دیا جائے کہ تلقیح کا عمل اندرونی طورپر وہیں انجام پائے؟
(۷)نطفہ شوہر کا ہو اور بیضہ کسی ایسی عورت سے لیا جائے جو اس کی بیوی نہ ہواور پھر تلقیح کا عمل انجام دینے کے بعد جنین کی پرورش شوہر کی بیوی کے رحم میں کی جائے ؟
نوٹ:۔ جوابات مختصر اور جامع ہوں
از: مبارک حسین مصباحی : مدیر اعلیٰ ماہ نامہ اشرفیہ
جواب:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَکَ الْحَمْدُ ےَا اَللّٰہُ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَےْکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ ہِدَاےَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سولات کے مختصر جوابات پیش کئے جارہے ہیں :
(۱) نطفہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مردکا ہو ، اس کی تلقیح (Pollination)بیوی کے بیضہ سے ہو پھر جنین (Fetus)کی پرورش بیوی کے رحم (Womb) میں کی جائے ۔ استقرار حمل کا یہ طریقہ بہرحال حرام ہے۔ یہ مثل زنا ہے ۔ ایسا کرنے والے مردو عورت گناہ کبیرہ کے مرتکب ، مستحق تعزیر ہیں، اس فعل قبیح کے حرام ہونے کی کئی وجہیں ہیں :
*نسل انسانی کی افزائش کا جو طریقہ اسلام نے متعین کیا ہے ، مذکورہ بالا مصنوعی طریقہ اس کے خلاف ہے ، اسلام نے نسل انسانی کی افزائش کا ذریعہ میاں، بیوی کو بنایا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے : ےٰٓأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِےْرًا وَّنِسَاءً (النساء:۱) ترجمہ : اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور دونوں سے کثیر مردو عورت پھیلائے۔ شوہر کا نطفہ (Sperm)گویا بیج اور بیوی کا رحم اس کے استقرار و نمو کے لئے زمین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
نِسَآءُ کُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ(البقرہ : ۲۲۳)
ترجمہ : تمہاری بیویاں تمہارے کھیت ہیں تو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔
آیت مذکورہ کی تفسیر کے تحت حاشےۃ الصاوی علی الجلالین میں ہے :
(نِسَآءُ کُمْ حَرْثٌ) اَیْ کَالْاَرْضِ لِےُوْضَعَ فِےْہَا البَذْرُ فَشُبِّہَ النِّسَاءُ بِالْاَرْضِ الَّتِیْ تُحْرَثُ وَ شُبِّہَ النُّطْفَۃُ بِالْبَذْرِ الَّذِیْ ےُوْضَعُ فِیْ تِلْکَ الْاَرْضِ وَ شُبِّہَ الْوَلَدُ بِالزَّرْعِ الَّذِیْ ےَنْبُتُ مِنْ الْاَرْضِ۔
یعنی بیویوں کو تشبیہ دی گئی زمین سے ، جس میں بیج بویا جاتا ہے اور نطفہ کو تشبیہ دی گئی بیج سے ، جو زمین میں ڈالا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے بچے کو تشبیہ دی گئی کھتیے سے ، جو زمین سے پیدا ہوتی ہے۔
کسی مرد کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بیج (نطفہ ) کو دوسرے کی زمین (بیوی کے رحم ) میں ڈالے اور یہ بھی حلال نہیں کہ دوسرے کی کھیتی (جنین ) کو اپنے پانی (منی ) سے سیراب کرے۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے : لَا ےَحِلُّ لِاْمْرَءٍ ےُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْےَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ ےَسْقِیَ مَاءُ ہُ زَرْعَ غَےْرِہٖ(ابوداؤد : کتاب النکاح )
زنامیں غیرکے حرث (بیوی کے رحم ) میں اپنا بیج (نطفہ )ڈالنا پایا جاتاہے اور استقرار حمل کے مذکورہ بالا طریقوں میں بھی یہ معنی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حرام ہے ۔
*شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے نطفے (Sperm)سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے، اسلام اسے جائز صحیح النسب نہیں کہتا۔ نسب اور مصاہرت (سسرالی رشہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے ضمن میں مقام احسان و امتنان میں ذکر فرمایا ہے ۔ اس کا ارشاد ہے :
وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشْراً فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَّ صِہْرًا وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِےْراً(الفرقان : ۵۴)
ترجمہ : وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی ، پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کی اور تمہارا رب قدرت والا ہے ۔ استقرار حمل کے مذکورہ طریقے میں نسب و رشتہ مصاہرت(سسرالی رشتہ) کااختلاط ہے ، جوان کی پامالی کا سبب ہے اور ان کی پامالی حرام ہے ۔
قرآن حکیم میں ہے :
فَہَلْ عَسَےْتُمْ اِنْ تَوَلَّےْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ اُوْلٰءِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَہُمْ ( محمد : ۲۲،۲۳)
ترجمہ : تم سے یہی امید ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچاؤگے اور اپنے رشتوں کو کاٹوگے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے۔ اللہ نے انہیں بہرے اندھے بنادئیے۔
مذکورہ مصنوعی طریقۂ حمل میں نسب و رشتۂ مصاہرت(سسرالی رشتہ) کا اختلاط ہے ، جو ان کی پامالی کا سبب ہے ۔ لہٰذا یہ حرام ہے۔
* زمانہ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ بیوی حیض سے پاک ہوتی تو شوہر اس سے کہتا کہ فلاں مرد کو پیغام پہنچاؤ کہ وہ تم سے وطی کرے۔ بیوی اس اجنبی مرد سے وطی کرتی اور جب تک اجنبی مرد کی وطی سے حمل قرار نہ پاتا شوہر اس سے وطی نہیں کرتا تھا۔ حمل ظاہر ہوجانے کے بعد شوہر چاہتاتو اس سے وطی کرتا تھا ۔ شوہر یہ اس لئے کرتا تھا تاکہ کسی شریف النسب مرد کے نطفہ سے اسے اولاد حاصل ہو۔ اس طریقہ کو’’ نکاح استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا۔
سنن ابوداؤد شریف کتاب الطلاق میں ہے :
اَنَّ النِکَاحَ کَانَ فِی الْجَاہِلیَّۃِ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اَنْحَاءٍ فَنِکَاحٌ مِنْہَا، نِکَاحُ النَّاسِ الْےَوْمَ ، ےَخْطُبُ الرَّجُلُ اِلٰی الرَّجُلِ وَ لِیََّتَہُ فَےُصْدِقُہَا۔ ثُمَّ ےَنْکَحُہَا وَ نِکَاحٌ آخَرُ ، کَانَ الرَّجُلُ ےَقُوْلُ لِاْمْرَأَتِہٖ اِذَا طَہُرَتْ مِنْ طَمْثِہَا ’’ اَرْسِلِی اِلٰی فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِیْ مِنْہُ ‘‘ وَ ےَعْتَزِ لُہَازَ وْ جُہَا وَلَا ےَمَسُّہَا حَتّٰی ےَتَبَیَّنَ حَمْلُہَا مِنْ ذَالِکَ الرَّجُلِ الَّذِیْ تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ وَہَذَا النِّکَاحُ ےُسَمَّی ’’ نِکَاحَ الْاِسْتِبْضَاعِ‘ ‘۔
ترجمہ: زمانۂ جاہلیت میں نکاح چار طریقے کا ہوتا تھا، ان میں سے ایک طریقہ وہی ہے جو آج لوگوں میں رائج ہے کہ کوئی آدمی کسی آدمی کی بیٹی، بہن کے پاس پیغام دیتا ہے پھر اس سے مہر کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ بیوی حیض سے فارغ ہوتی تو اس کا شوہر اس سے کہتا کہ تم فلاں آدمی کو پیغام بھیجو تاکہ وہ تم سے وطی کرے۔ عورت اس اجنبی مرد سے وطی کرتی تھی اور اس سے حمل ٹھہرنے تک شوہر وطی نہیں کرتا تھا۔ اس نکاح کو ’’ نکاح استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا۔
حدیث مذکورکا آخری حصہ یہ ہے ۔
فَلَمَّا بَعَثَ اللّٰہُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ہَدَمَ نِکَاحَ اَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہُ اِلَّا نِکَاحَ اَہْلِ الْاِسْلَامِ۔
ترجمہ :جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو آپ نے اہل اسلام کے نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح کو باطل کر دیا۔
استقرار حمل کا مذکورہ بالا مصنوعی طریقہ اور ’’ نکاح استبضاع ‘‘ کے ذریعہ استقرار حمل کا طریقہ دونوں اس لحاظ سے ایک ہیں کہ دونوں طریقوں میں شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے نطفہ کو بیوی کے رحم میں داخل کر کے اولاد حاصل کی جاتی ہے۔ فرق دونوں میں اتنا ہے کہ نکاح استبضاع میں غیر شرعی طورپر طرفین کے جنسی اختلاط ( زنا) سے بچہ پیدا ہوتا ہے ، جو زنا کی وجہ سے حرام ، موجب حد ہے ، لیکن مذکورہ بالا مصنوعی استقرار حمل میں غیر شرعی طورپر طرفین (اجنبی مردو عورت) کے نطفہ و بیضہ کے اختلاط کے ذریعہ بچہ حاصل کیا جاتا ہے ، معنوی اعتبار سے دونوں ایک ہیں اگرچہ صورتاً و عملًا دونوں الگ الگ ہیں۔ لہٰذا دونوں کے حرام ہونے میں شبہ نہیں۔ البتہ یہ صرف معنًا زنا ہونے کی وجہ سے حرام ہونے کے باوجود موجب تعزیر ہوگا ، موجب حد نہیں ۔
(۲) شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے پھر تلقیح کے بعد جنین کی پرورش بیوی کے علاوہ دوسری عورت کی رحم میں کرنا جائز نہیں۔ یہاں بھی اختلاط نسب کی صورت موجود ہے۔ بچہ ماں کی جانب بھی منسوب ہوتا ہے اور یہاں بچہ ، ماں کی طرف نسبت کرتے ہوئے مخلوط النسب ہوگا۔ کیو ں کہ جس عورت نے اپنی رحم میں اجنبی مرد کی جنین کی پرورش کے لئے رضا کارانہ خدمات پیش کیں (اگر چہ یہ خدمت پیش کرنا بھی حرام ہے ) عُرفاً بچے کی ماں نہیں ہوگی، بلکہ جس عورت کے لئے اس نے یہ خدمات پیش کی ہیں وہی بچے کی ماں کہلائے گی اور سارے حقوق مادری عُرفاً اسی کے لئے ہوں گے۔ حالانکہ شرعاً بچے کی ماں وہی عورت ہے جس کے رحم میں اس کی پرورش ہوئی ، جس نے اسے خون جگر پلایا، مشقت پہ مشقت کر کے اسے جنا۔
قرآن حکیم میں ہے :
ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذَا اَنْشَأَ کُمْ مِنْ الْاَرْضِ وَ اِذَا اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ ( النجم : ۲۲)
ترجمہ : وہ (اللہ )تمہیں خوب جانتا ہے کہ جب تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچّے تھے۔ اور قرآن حکیم میں یہ بھی ہے :
ےَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلَقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلٰثٍ(الزمر :
۶) ترجمہ : وہ تم کو پیدا کرتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک طرح کے بعد دوسری طرح تین تاریکیوں میں ۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے : وَا
للّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّہَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شِےْءًا وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالَْاَفْءِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(النحل : ۷۸)
ترجمہ: اور اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے لئے کان اور آنکھ بنائے اور دل ، تاکہ تم شکر ادا کرو۔ پھر جنین کی پرورش کرنے والی عورت شوہر والی ہو تو شرعی طورپر بچہ اس کے شوہر کا ہوگا ۔ کہوں کہ بچہ صاحب فراش (شوہر ) کا ہوتا ہے۔ حالانکہ جس عورت کے بیضہ سے بچہ ہوا ہے ، بچہ اس کا جز ہونے کے اعتبار سے اس عورت کی جانب بھی منسوب ہوگا اور جس مرد کے نطفے سے بچے کی تخلیق ہوئی ، بچہ اس کا جز ہونے کے باوجود شرعی طورپر اس کا باپ نہیں ہوگا۔ بہرحال یہاں نسب کا اختلاط ہے ، جو حرام ہے۔ نسب کو اختلاط سے بچانے کے لئے شریعت اسلامیہ میں مطلقہ مدخولہ عورت کے لئے عدت کو واجب کیا گیا۔ عدت کی حکمتوں کو ذکر کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں :
مِنْہَا مَعْرِفَۃُ بَرَاءَ ۃِ رَحْمِہَا مِنْ مَاءِ ہٖ لِءَلَّا تَخْتَلِطَ الْاِنْسَابُ فَاِنَّ النَّسَبَ اَحَدُ مَا ےُتَشَاحُ بِہٖ وَےَطْلُبُہُ الْعُقْلَاءُ وَہُوَ مِنْ خَوَاصِّ نَوْعِ الْاِنْسَانِ وَ مِمَّا امْتَازَ بِہٖ مِنْ سَاءِرِالْحَےْوَانِ وَہُوَ الْمَصْلِحَۃُ الْمَرْعِیَّۃُ فِیْ بَابِ الْاِسْتِبْرَاءِ ( حجۃ اللہ البالغہ : ۲؍۲۵۶،دارالکتب بیروت)
ترجمہ : عدت کی ایک حکمت مطلقہ عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کے رحم کی صفائی معلوم کرنا ہے ۔ تاکہ نسب خلط ملط نہ ہوں۔ کیونکہ نسب کے سلسلے میں ایک دوسرے پر سب سے زیادہ غلبہ حاصل کیا جاتا ہے اور عقلاء کا یہ مطلوب ہے۔ یہ نوع انسانی کے خواص سے ہے جس کے ذریعہ وہ تمام حیوانوں سے ممتاز ہے۔ استبراءِ رحم(رحم کو نطفہ سے خالی کرنا) کے باب میں یہی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ بہرحال استقرار حمل کے مذکورہ بالا طریقے کو جائز قرار دینے سے، اختلاط نسب ، قطع رحم اور بہت سے مفاسد دینیہ و دنیویہ کے ساتھ ساتھ رضاعت، حضانت ، وراثت کے بہت سے مسائل میں شریعت اسلامیہ کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی لازم آئے گی ۔
(۳)کسی اجنبی شخص کے نطفے اور اجنبی عورت کے بیضے کے درمیان بیرونی طورپر تلقیح کی جائے ، پھر جنین کی پرورش بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ عمل بھی حرام مثل زنا ہے۔ یہ طبعی و شرعی دونوں لحاظ سے قبیح اور قرآن کا فرمان ، فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے بھی نسب کا اختلاط و ضیاع ، خاندان و نسل کی بربادی اور اس کے نتیجے میں قطع صلہ رحمی اور حقوق والدین کی پامالی وغیرہ مفاسد لازم آتے ہیں۔
(۴)شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طورپر تلقیح کی جائے اور جنین کی پرورش اسی شوہرکی دوسری بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ صورت بھی ناجائز ہے ۔ یہاں ماں کی طرف نسبت کرتے ہوئے بچے کا نسب مخلوط ہوگا۔ کیونکہ میاں بیوی کے نطفہ و بیضہ کے اختلاط سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نسب دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جس بیوی کے بیضہ سے بچہ پیدا ہوا وہی اس کی ماں ہے ۔ حالانکہ قرآنی ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کے شکم سے بچہ پیدا ہوتا ہے وہی اس کی ماں ہے۔
چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
وَوَصَّےْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَےْہِ اِحْسَانًا ،حَمَلَتْہُ اُمُّہُ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا (الاحقاف: ۱۵)
ترجمہ : ہم نے انسان کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور اس کو جنا تکلیف سے۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے :
وَوَصَّےْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَےْہ ، حَمَلَتْہُ اُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَ فِصٰلُہُ فِیْ عَامَےْنِ اَنِ اشْکُرْلِی وَلِوَالِدَےْکَ (لقمن : ۱۴)
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکیدی حکم دیاکہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکرگزار رہ ۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پہ کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے۔ یہ بھی قرآن پاک میں ہے :
اِنْ اُمَّہَا تُہُمْ اِلَّاالْلاَّءِی وَلَدْنَہُمْ(المجادلہ : ۲)
ترجمہ : نہیں ان کی مائیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا۔
باوجود اس کے جس بیوی کے بیضہ سے بچہ پیدا ہوا وہ ماں ہونے کا دعویٰ کرے گی اور بچہ جننے والی بیوی بھی ماں ہونے کا دعوی رکھے گی اور بچہ دونوں کا جز ہونے کے لحاظ سے دونوں کی جانب منسوب ہوگا جس سے ماں کی طرف اس کا نسب مختلط ہوگا۔ پھر حقوق مادری میں نزاع واقع ہوگا۔ نیز حضانت(پرورش) و وراثت وغیرہ مسائل میں فساد لازم آئے گا۔
(۵،۶)نطفہ شوہر کا اور بیضہ بیوی کا ہو ، ان کی تلقیح بیرونی طورپر کی جائے ۔ پھر جنین کی پرورش اس بیوی کی رحم میں کی جائے ۔ یا ۔ شوہر کا نطفہ کے کراسکی بیوی کے اندام نہانی یا رحم میں کسی مناسب جگہ اس طرح پہنچادیا جائے کہ تلقیح کا عمل وہیں انجام پائے۔ یہ دونوں طریقے اس شرط کے ساتھ جائز ہیں کہ تلقیح کا عمل خود شوہر انجام دے ۔ کیوں کہ شوہر کے علاوہ دوسرے مردو عورت کے لئے عورت کی شرمگاہ کو بلا ضرورت شرعیہ دیکھنا اور چھونا حرام ہے۔
(۷) نطفہ شوہر کا ہو اور بیضہ کسی ایسی عورت سے لیا جائے جو اس کی بیوی نہ ہو ، پھر تلقیح کا عمل انجام دینے کے بعد جنین کی پرورش شوہر کی بیوی کے رحم میں کی جائے۔ یہ طریقہ حرام ہے ۔ یہ مثل زنا ہے ۔ اس میں اختلاط نسب بھی ہے اور یہ قطع رحم کا سبب بھی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب