مضامین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔اما م جلال الدین سیوطی ؒ میلاد النبی ﷺ کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں
میرا مؤقف اس سوال کے جواب میں یہ ہے کہ رسول معظم ﷺکا یوم ولا دت اصل میں خوشی اور مسرت کا ایک ایسا موقع ہے جس میں لوگ جمع ہو کر بقدرسہولت قرآن خوانی کر تے ہیں اور وہ ان روایا ت کا تذکرہ کر تے ہیں جو آپ ﷺکے با رے منقول ہوں اور حضور نبی اکرم ﷺکی ولا دت مبا رکہ کے معجزات اور خا رق العا دت واقعات کے بیا ن پر مشتمل ہو ں پھر اس کے بعد ا ن کی ضیا فت ان کے پسندیدہ کھا نوں سے کی جا تی ہے ۔وہ اس بدعت حسنہ میں کسی اضا فہ کے بغیر لوٹ جا تے ہیں اور اس اہتما م کر نے والے کو حضور ﷺکی تعظیم کی بدولت اور آپ ﷺکے میلا د پر فر حت اور دلی مسرت کا اظہا ر کر نے کی بنا ء پر ثوا ب سے نوازا جا تا ہے ۔
میلا د شریف کو موجودہ شکل میں منا نے کا آغا ز۱ربل کے حکمران سلطا ن مظفر کے دور سے ہو ا ۔سلطا ن کا پورا نام ابو سعید کو کبری ابن زین الدین ابن بکتگین تھا جن کا شما ر عظیم سلا طین او ر مخیر وفیا ض و رہنما ؤں میں ہوتا ہے اور بہت سے کا رنا موں کا سہر اان کے سر ہے ۔ان کی یا د گا روں میں جا مع مظفر ی سر فہر ست ہے جس کی تعمیر کو ہ قا سیون کے قریب ان کے ہا تھوں عمل میں آئی ۔
ابن کثیر سلطان مظفر کے بارے میں بیا ن کر تے ہیں :’’سلطا ن مظفر کا معمول تھا کہ وہ میلاد شریف کا اہتما م بڑے تزک واحتشام سے کر تا اور اس سلسلے میں وہ شا ندار جشن کا انتظا م کر تا تھا ۔وہ پا ک دل روشن ضمیر بہا در انسان ،دانا عالم منصف مزاج حکمران تھا ۔اللہ تعا لی ان کے در جا ت بلند کرے اوراس پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے ۔شیخ ابو الخطا ب ابن وحیہ نے سلطا ن کے لئے ایک کتاب بعنوان ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر ’’تصنیف کی جس کے صلے میں سلطا ن نے اسے ایک ہزار دینا ر بطور نذرا نے کے دیئے ۔سلطا ن مظفر کی حکمرانی ان کی اپنی وفات تک بر قرار رہی جو ۶۳۰ہجری میں شہرعکا میں ہو ئی جب وہ اہل یو رپ کو محا صرے میں لئے ہوئے تھے ۔مختصر یہ کہ وہ ایک متقی پر ہیزگا ر اور شریف الطع انسان تھے ۔
سبط ابن الجوزی نے اپنی کتاب ‘‘مرآت الزما ن ‘‘میں بعض لوگوں سے بیا ن کیا ہے کہ سلطان مظفر کے منعقدہ میلاد شریف کے موقع پر جو شاہی دستر خواں بچھا یا گیا اس میں پا نچ ہزار بھنے ہو ئے بکرے کی سری ،دس ہزار مرغ،ایک لا کھ مٹی کے ظروف اور تیس ہزار شریں میوہ جا ت کا انتظام کیا گیا ۔ موصوف ر قم طرازہے کہ سلطان کی منعقد کی گئی محفل میلا د شریف میں عالی مرتبہ علما ئے کرام اور صوفیا ء کومد عو کیا گیا اور انہیں شا ہی خلعتوں اور دیگر انعام واکرام سے نوازاگیا ۔حضرات صوفیا ء کے لئے ظہر سے فجر تک سما ع کا اہتما م بھی کیا جا تاتھا جس میں سلطا ن بنفس نفیس شرکت کرتا اور صوفیوں کے سا تھ حا لت وجدوکیف میں رہتا ۔ہر سال میلا د شریف پر اٹھا ئے جا نے والے مصارف کا تخمینہ تین لا کھ دینا ر ہو تا تھا ۔بیرون شہر سے آنے والوں کے لئے سلطان نے ایک مہما ن خا نہ خاص بنا رکھا تھا جہا ں بلا لحا ظ حیثیت ومر تبہ تما م شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ قیام کر تے ۔اس مہما ن خانہ میں مہما نداری کے اخراجات ایک لا کھ دینا ر سالا نہ ہو تے تھے ۔
اسی طرح سلطان نے سالا نہ ایک لا کھ دینا ر ان مسلما ن قیدیوں کی گر دن چھڑانے کے لئے مختص کر رکھے تھے جو یو رپی لو گوں کے جنگی قیدی تھے۔مزید بر آں حر مین شریفین کو انتظا می طور پر بحال رکھنے اور حجا زکے راستوں کے ساتھ حجا زکے لئے پا نی کی فراہمی کا انتظا م کر نے کے لئے تیس ہزار دینارسالا نہ خرچ کئے جا تے تھے ۔یہ سب کچھ ان صدقات وخیرات کے علا وہ تھا جو سلطان صیغہ رازمیں رکھ کر کر تا تھا ۔سلطان کی اہلیہ رابعہ خاتون بنت ایوب جو سلطا ن ناصر صلا ح الدین کی ہمشیرہ تھیں بیان کر تی ہیں کہ سلطان خود کھدر کا بنا ہواکپڑا پہنتے تھے جس کی قیمت پا نچ در ہم سے زیادہ نہیں ہو تی ۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے سلطان پر طعنہ زنی کی تو وہ کہنے لگے کہ میرا پا نچ در ہم کا قمیص پہننااور اپنے ذاتی اخراجا ت سے بچائی ہوئی باقی رقم صدقہ وخیرات میں دے دینا قیمتی لباس میں ملبوس ہو نے اور غُربا ء ومسا کین کو ترک کر دینے سے بدر جہا بہتر ہے ۔ابن خلکا ن حا فظ ابو الخطا ب ابن وحیہ کے سوا نحی خا کے میں لکھتا ہے ان کا شما ر پر ہیزگار علما ء اور مشہور محققین میں ہو تا تھا ۔وہ مراکش سے شام اور عراق کی سیا حت کیلئے رونہ ہو ئے۔ان کا گزراربل کے علا قے سے ۶۰۴ ؁ھ میں ہوا جہا ں ان کی ملا قات عظیم المر تبت سلطان مظفر سے ہوئی جو یوم میلاد البنی ﷺکے انتظامات میں مصروف تھا ۔اس موقع پر انہوں نے وہ کتا ب لکھی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔انہوں نے یہ کتاب خود سلطان کو پڑھ کر سنا ئی پس اس کو ایک ہزار دینار انعام عطا کیا اور وہ کہتے ہیں کہ میں بھی ا ن کے ساتھ شریک سما عت تھا ۔ اس کتاب کی قر أت ۶۲۵ھ میں سلطا ن کے محل میں چھ نشستوں کے اندر مکمل ہوئی ۔
۲۔شیخ الاسلام ابوالفضل احمدابن حجرؒ سے میلاد شریف کے با رے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ میلاد شریف دراصل ایک ایسی نئی چیز ہے جوابتدائی تین صدیوں میں متقدین میں سے کسی نے نہیں کی اور اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا ۔ با وجود اس کے اس نئی چیز میں اچھے اور قابل ملا مت دونوں پہلوپا ئے جا تے ہیں ۔بعض اوقات اچھے پہلو غا لب ہو تے ہیں اور کبھی قابل ملامت پہلووں کا غلبہ ہوتا ہے ۔اگر میلاد شریف میں نیکی کے کا م کئے جا ئیں اور برے کا موں سے اجتنا ب کیا جائے تو پھر میلاد شریف بد عت حسنہ (اچھی نئی چیز)ہے ورنہ نہیں ۔
معتر ضین کا کہناہے کہ صحیح بخا ری اور صحیح مسلم میں میلاد شریف کے جوازکی ٹھوس بنیادیں نہیں ملتی ہیں۔روایات میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں۔آپ ﷺنے ان سے اس کی وجہ دریا فت کی تو انہوں نے بتایا کہ عاشوراء کے دن قوم موسٰی علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے فر عون کے ظلم سے نجات دلا ئی اورفرعون کو غرق دریا کردیا ۔اس لئے یہ دن اللہ تعالی کا شکر بجا لا نے کے لئے منا تے ہیں ۔
اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ کسی نعمت کے ملنے پراللہ کا شکر بجا لا یا جا تا ہے اور نعمت خداوندی پرا ظہا رتشکر کرنے سے ہر سال اس خاص دن کی یاد منا ئی جا تی ہے جس میں اللہ بزرگ وبر ترنے اپنا انعا م کیا یا کسی آفت سے نجا ت دلا ئی ۔ اللہ رب العزت کا شکر مختلف قسم کی عبا دتوں کے ذریعے کیا جا تا ہے جو بحالت نمازقیام و سجود ،صدقہ وخیرا ت اور قرآنی آیا ت کی تلا وت کی شکل میں ہوسکتا ہے ۔
دیکھاجائے تو اس سے بڑی نعمت اور احسان کیا ہوسکتاہے کہ اللہ تعالی نے اس دن یعنی بارہ ربیع الاول کو پیغمبر رحمت ﷺکا ظہور فرما یا ۔پس اس دن کو خصوصی طور پر منا یاجا نا چاہئے۔اس سے حضرت موسی علیہ السلام کے روزہ عاشوراء کے واقعہ کے ساتھ ہم آہنگی پیداہوجاتی ہے ۔
بعض لوگ میلادکی تقریب منانے کے د ن کومحدود نہیں کرتے اور وہ ربیع الاول کے کسی دن بھی تقریب میلاد منعقد کر لیتے ہیں۔ بعض اس سے بھی آگے جا تے ہیں اور سارا سال محفل میلاد کا اہتما م کر تے رہتے ہیں ۔آخرالذکر کے نزدیک میلاد کو سال کے کسی دن بھی منا یا جا سکتاہے اس کا مقصد ایک ہی ہے یعنی رسول معظم ﷺکی آمد پر اظہارمسرت ۔
جہا ں تک اعما ل وافعال کا تعلق ہے جو میلاد شریف میں روارکھے جاتے ہیں یہ ضروری ہے کہ انسان صرف ان پر ہی اکتفا کرے جن کے ذریعے اللہ رب العزت کا شکرانہ منا سب طریقہ اور بہتر اندازسے اداکیا جا سکے یعنی قرآن مجید کی تلا وت ،کھا نے پینے کی چیزوں میں شریک ہونے کی دعوت صدقہ وخیرات ،سر کا ر دو عالم ﷺکی ولادت پاک ، فضائل ومناقب ،آپ کی سیرت ،مدح سرائی اورآپ کے زہد کو بیان کرنا جن سے عبا دت اور نیکی کے کاموں کی اور آخرت کے لئے عمل کی ترغیب ملیں ۔
باقی وہ چیزیں جو لہوو لعب اور تفریح کا سامان کرتی ہیں اور جو شریعت مطہرہ میں حرام و مکروہ ہیں ان سے بچا جائے مثلاً رزق کی بے حرمتی ،ناچ گانے اور خلق خدا کو نقصان پہنچانے کے اعمال و افعال وغیرہ سے قطعاً پرہیز کیا جائے تاکہ میلاد مصطفےٰ ﷺ کے خیر و برکت سے محرومی نہ ہو ۔
۳۔اما م القراء شمس الدین الجزری ؒ اپنی کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف ،،میں ابولہب کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اسے بعدازمرگ خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ وہ کس حا ل میں ہے ۔ اس نے بتا یا کہ وہ سخت عذاب میں مبتلا ہے تا ہم دو شنبہ( پیر )کی رات اس کے عذاب میں کچھ تخفیف کردی جا تی ہے اور اس کی اس انگلی سے پانی ٹپکتا ہے ،جس کے اشارے سے اس نے اپنی باندی ثو یبہ کو رسول مکرم ومحتشم ﷺکی ولا دت کی خو شخبری دینے پر رہا کر دیا تھا جس نے آپ ﷺکو اپنا دودھ پلا یاتھا ۔ اما م الجزری ؒ دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ابو لہب جیسے کا فر کو جس کی مذمت میں قرآن مجید کی ایک پوری سورت نازل ہوئی حضور ﷺ کی ولادت پر اظہار مسرت کے لئے انعام سے نوازا جاتا ہے تو پھر اس صاحب ایمان توحید پرست مخلص مسلمان پر کیا کیا انعام و اکرام نہ ہوگا جو اپنے آقا و مولا ﷺ کا میلاد اپنی استطاعت کے مطابق اپنی جیب سے خرچ کرکے، حضور ﷺ سے اپنی محبت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا میرا ایمان ہے کہ اس کا اجر اللہ رب العزت کی بے پایاں رحمت سے اتنا زیادہ ہوگا کہ اس کا ٹھکانہ ابدی نعمتوں سے باغات میں کر دیا جائے گا۔
۴۔حافظ شمس الدین ابن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب ’’مورد السعدی فی مولد الہادی ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
صحیح احادیث میں یہ بات تکمیل کو پہنچ چکی ہے کہ ابولہب کے لئے ہر پیر کے دن عذاب میں اس لئے تخفیف کردی جاتی ہے کہ اس نے حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت مبارکہ کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کردیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آقائے محترم ﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار لکھے:
’’جب ایک کافر جس کی مذمت میں قرآنی آیات اتریں کہ اس کے ہاتھ آتش دوزخ میں ہمیشہ کے لئے تباہ ہوجائیں، کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ہمیشہ پیر کے دن احمد ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنے کے صلہ میں اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے۔ پھر اس اللہ کے بندے کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا جس نے اپنی پوری زندگی احمد مصطفی ﷺ کی تشریف آوری پر حالت مسرت و شادمانی میں گزاردی اور دم آخر تو حید کا پرچم بلند کئے رکھا۔
۵۔امام ذہبی ملک المظفر کے جشن میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ملک المظفر کے محفل میلاد مصطفی ﷺ منانے کے انداز کو الفاظ بیان کرنے سے قاصرہیں۔ جزیرۃ العرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لئے آتے ........اور کثیر تعدد میں گائیں ،اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے ۔ وہ صوفیاء کے لئے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا۔ اور واعظین وسیع وعریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن وحیہ نے اس کے لئے میلاد النبیﷺ کے موضوع پرکتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دئیے۔ وہ منکسرالمزاج ، راسخ العقیدہ سنی تھا۔ فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ ابن جوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین ہر سال محفل میلاد پر تین لاکھ دینار خرج کرتا تھا.........اور وہ شخص جو اس محفل میں شریک ہوتا تھا اس کا کہنا ہے: میں نے اس کے دستر خوان پر سو قشلمیش ، پانچ ہزار مرغیاں ، ایک لاکھ مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے ۔ ‘‘
۶۔امام کثیرمتوفی ۷۷۴ ؁ھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ شاہ اربل ملک مظفر ابوسعید کو کبری ابن زین الدین علی بن تبلتکین ایک سخی عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا۔ جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی وہ زیرہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھاتو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا ۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفل میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر ، جری ، عقلمند اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے شیخ ابوالخطاب ابن دحیہ نے اس کے لئے میلاد النبیﷺ کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر ‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اسے ایک ہزار دنیار انعام دیا۔ اس کی حکومت ،حکومت صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکاکا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابل تعریف سیرت و کردار اور قابل تعریف دل کا آدمی تھا۔ سبط جوزی نے بیان ہے مظفر کے درسترخوان میلادپر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں ، ایک لاکھ مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ میلاد کے موقع پر اس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لئے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ وجد وحال میں ہوتا تھا ۔ہر خاص و عام کے لئے ایک دارالضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لئے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار اسیروں کو رہا کرایا۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بار ے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے میرے پانچ دراہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کردینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑدوں، اور وہ ہر سال محفل میلا د النبی ﷺ پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور پانی پر حجاز کے راستے میں خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا ، رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ اس کی وفات قلعہ اربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایاجائے ، مگر ایسا نہ ہوسکا اور اسے مزار علی میں دفن کیا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*

Share this Article
No Comments For This Post.
Leave a Comment
Name:
Email:
Comment:
Enter the code shown:


Can't read the image? click here to refresh

کال / ای میل کریں

+91 939 55 249 03

ہم تک پہنچیں

# 17-3-325/5/A,
مرتضی نگر ، یاقوت پورہ ، بڑہ بازار
حیدرآباد - 23 ، ٹی ایس ، انڈیا

Copyrights © 2025 Islamic Research Centre Hyderabad, All Rights Reserved.